اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان
اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان تنظیمی سال 2021 (کربلا و اطاعت حق) اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کنونشن کا 52واں مرکزی کنوینشن - اسلام پیغام وحدت و یوم امام زین العابدین ع انشاءَ اللہ تعالی 24،25، اور 26 دسمبر بمقام ثقافتی مرکز بھٹ شاھ کو منعقد ہوگا۔

Asgharia Introduction

اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان کا تعارف

 

اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان 1967ع میں وَادی مہران کے مادرِ عِلمی، ادارے جامعہ سندہ میں زیرِ تعليم اہلبیت علیهم السلام کے عشق و محبت میں سرشار کچھ نوجوانوں نے مل کر امام حسینؑ کے معصوم فرزند حضرت علی اصغرؑ کے مقدس نام سے منسوب انجمنِ اَصغریہ کی بنیاد رکھی۔

ہدف اور مقصد یہ تھا کہ اس بڑی درسگاہ میں جہاں مختلف شعبہ جات میں تعلیم اور تحقیق کے ذریعے مہارت حاصل کی جاتی ہے، جہاں پر مختلف خیالات کے نوجوان اکٹھے ہوتے ہیں، جہاں پر بہت سے مکتبہ فکر اور ملے جلے خیالات کے سلسلے جڑتے ہیں، وہاں پر اہلبیت کے عشق و محبت کے ساتھ اپنے دلوں کو ہر قسم کی آلودگی سے بچانے کے لیئے ایک ایسی انجمن کی بنیاد رکھی جائے، یا ایک ایسا گروہ تشکیل دیا جائے جس سے ایک طرف سوچ اور فکر کو آلودگی سے بچایا جائے تو دوسری جانب ناپسندیدہ آوازوں کے درمیاں میں ایک دل کش نعرے کی آواز بلند کر کے تعلیم و تحقیق کی جانب آنے والوں کا رخ بابُ العِلم کی جانب کیا جائے تا کہ عِلم اس دروازے سے حاصل کیا جا سکے جس کے لئے کائنات کے

رسول حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے فرمایا ہے۔

“میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے”۔

اس نیک جذبے کے تحت انجمنِ اَصغریہ کی بنیاد رکھی گئی۔ سنده یونیورسٹی، مہران یونیورسٹی اور لیاقت میڈیکل کالج کو مرکز قرار دے کر کام کا آغاز کیا گیا۔

ابتداء يومِ حسین کے انعقاد سے کی گئی جو اس حوالے سے بھی یادگار ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ کسی تعلیمی ادارے میں فرزند رسول، حریت پسندوں کے سردار امام حسین کے مقدس نام سے دن منایا گیا اور عزم کیا گیا کہ یوم حسین کے انعقاد کے ساتھ ساتھ سالانہ مخزن ‘الحسین’ بھی شائع کیا جائے گا۔ جو بھی مقامی زبان سندھی میں پہلا مخزن تھا۔ علاہ ازیں جامعہ سندہ میں پڑھنے والے مکتب اہلبیت کے پیروکار طلبہ کے لئے باجماعت نماز ادا کرنے کا پہلے کوئی اہتمام نہ تھا، انجمن اصغریہ کے پلیٹ فارم سے انتظامیہ کے ساتھ معاملات طے کر کے ہاسٹل ‘سی’ میں ایک ہال مسجد کے لئے الاٹ کروادیا جو اب تک موجود ہے، یہاں باجماعت نماز کے اہتمام کے علاوہ علماء کے دروس و تنظیمی نشستیں ہوتی رہتی ہیں۔ جامشورو کی تیز ہوائوں کے ذریعے اس حسینی مہکار نے وادی مہران کے مختلف علاقوں کا رخ کیا تو بہت جگہوں سے مطالبے شروع ہوئے کہ ہمیں بھی اس حسینی قافلے میں شامل کیا جائے، نتیجے میں چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ، سپیریئر سائنس کالج خیرپور، زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام اور بہت سے چھوٹے بڑے شہر اس خوشبو سے معطر ہوئے اور انجمن اصغریہ کے یونٹ قائم ہوئے۔

بزرگوں نے جب اس قدر چاہت دیکھی تو 12 مئی 1974 کو قدم گاه مولا علی حیدرآباد میں کل سندھ شیعہ طلبہ کنونشن منعقد کیا اور شرکاء کی رائے اور مطالبے سے ملک کی پہلی طلباء تنظیم، اصغریہ اسٹوڈٹش آرگنائیزیشن سندہ، کا بنیاد رکھا گیا۔

1974ع سے 1978ع تک کا عرصہ تنظیمی وسعت، اداروں کی تشکیل، تنظیمی یونٹوں کے قیام کے ساتھ ساتھ تنظیم کے پلیٹ فارم سے مختلف علاقوں میں یوم مصطفٰی و مرتضٰی اور یوم حسین کا انعقاد کیا گیا، اور سالانہ مخزن الحسین شائع ہوتا رہا۔ اگر سوال کیا جائے کہ یوم منانا اور جلسے منعقد کرنا تو بڑی بات یا پھر بڑا ہدف نہیں ہے، یہ کام انجمنیں بھی کر رہی ہیں۔ جی ہاں بلکل انجمنیں بھی کرتی رہی ہیں مگر ایک فرق کے ساتھ ، اگر آپ ستر کی دہائی کے دوران سندھ میں شیعت کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہو گا عمل کی طرف رغبت کم تھی، چند مناظرانه قسم کی باتیں اسٹیج سے بیان ہوتی تھیں، ہمارے منبر عمل کی دعوت سے محروم تھے، ذاکری کا رجحان عام تھا۔ اسی طرح کے ماحول میں تنظیم کی طرف سے منعقد ہونے والے جلسے اور یوم اس حوالے سے منفرد اور مؤثر تھے جو ان جلسوں میں انفرادی اور اسلامی فکر رکھنے والے علماء کو مدعو کر کے سیرت آئمہ بیان کی جاتی تھی، اور عمل کی طرف رغبت دی جاتی تھی۔

1979ع میں پڑوسی ملک ایران میں برپا ہونے والے انقلاب جس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ انقلاب مکتب اہلبیت کے پیروکاروں کے ہاتھوں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اور اس انقلاب میں متحرک حصہ مکتب کے پیروکار طلبہ کا بھی تھا، اس لئے اس انقلاب نے ساری دنیا کے نوجوانوں کو متاثر کیا۔ اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن، جیسا کہ سندھ کے شیعہ طلبہ کی تنظیم ہے، اس انقلاب نے اصغریہ کے اندر بھی انقلابی رجحان پیدا کیا۔ تنظیم کے سینئر دوستوں نے تنظیم کے اندر تعلیم و تربیت کے مؤثر پروگراموں کی بنیاد رکھی۔ چھوٹے بڑے پروگرام منعقد ہونے لگے۔ نوجوانوں نے اپنے آپ کو اسلامی ثقافتی رنگ میں رنگنا شروع کر دیا، یعنی چہرہ باریش، ہاتھ میں تسبیح، باجماعت نمازوں کا قیام، شادی بیاہ کے موقعوں پر ہونے والی غیر ضروری رسومات اُور ڈھول باجوں کا خاتمہ وغیرہ ۔