اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن پاکستان
اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان تنظیمی سال 2021 (کربلا و اطاعت حق) اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کنونشن کا 52واں مرکزی کنوینشن - اسلام پیغام وحدت و یوم امام زین العابدین ع انشاءَ اللہ تعالی 24،25، اور 26 دسمبر بمقام ثقافتی مرکز بھٹ شاھ کو منعقد ہوگا۔

سید علی حسینی سیستانی

سید علی حسینی سیستانی (متولد ۱۳۰۹ شمسی) شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں اور نجف اشرف میں درس خارج فقہ و اصول کے استاد ہیں۔ انہوں نے حوزوی تعلیم مشہد، قم اور نجف میں حاصل کی ہے اور سید محمد حجت کوہ کمرہ ای، آیت اللہ بروجردی اور آیت اللہ خوئی کے دروس میں شرکت کی ہے۔ آیت اللہ خویی کے انتقال کے بعد سن ۱۴۱۳ ھجری قمری میں وہ مرجعیت تک پہچے اور انہوں نے صدام حسین کے سقوط کے بعد ملک میں نظام حکومت تبدیل ہونے اور جدید ملی قانون کے نافذ ہونے مضبوط کردار ادا کیا ہے۔

سید سیستانی نے دہشت گرد تنظیم داعش کے عراق پر حملہ اور مرکزی اور جنوبی علاقوں کی طرف پیش قدمی کو روکنے اور ملک کے دفاع کرنے کے سلسلہ میں واجب کفائی کا فتوی دیا۔ ان کی بعض فقہی تالیفات جیسے قاعدہ لا ضرر و لا ضرار، تقریرات کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔ بہت سے علمی اور تعلیمی مراکز، کتب خانے، فلاحی و رفاہی ادارے دنیا کے مختلف گوشوں جن میں ایران، ترکی، عراق، برطانیہ اور لبنان جیسے ممالک شامل ہیں، آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی طرف سے تاسیس کئے گئے ہیں۔

سوانح عمری

سید علی حسینی سیستانی ۱۳۰۹ مرداد ۱۳۰۹ ہجری شمسی مطابق ۹ ربیع الاول ۱۳۴۹ ہجری قمری میں شہر مشہد میں متولد ہوئے۔ ان کے والد سید محمد باقر شیعہ علمائ میں سے ہیں اور ان کی والدہ سید رضا مھربانی سرابی کی بیٹی تھیں، ان کے جد سید علی سیستانی نجف اشرف میں میرزای شیرازی کے شاگردوں میں سے تھے وہ سن ۱۳۱۸ ق میں ایران واپس آ گئے تھے۔[1]

تعلیم؛ مشہد سے قم و نجف تک

سید سیستانی نے ابتدائی اور مقدماتی تعلیم مشہد میں حاصل کی اور سن ۱۳۶۰ ق کی ابتدائ میں انہوں نے حوزوی علوم کی مقدماتی تعلیم کا آغاز کیا۔ ادبیات عرب ادیب نیشاپوری سے، شرح لمعہ و قوانین سید احمد مدرس یزدی سے، فقہ و اصول کی سطوح عالی کی کتابیں میرزا ہاشم قزوینی سے پڑھیں اور فلسفہ کے دروس سیف اللہ ایسی میانجی، شیخ مجتبی قزوینی اور میرزا مھدی اصفہانی سے پڑھے، سید علی سیستانی نے اسی طرح سے میرزا مہدی آشتیانی اور میرزا ھاشم قزوینی کے درس خارج میں بھی شرکت کی۔[2]

قم میں تین سالہ قیام

سید علی سیستانی سن ۱۳۶۸ ق میں شہر قم میں وارد ہوئے اور وہاں آیت اللہ بروجردی کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کی اور اسی طرح وہ آیت اللہ حجت کوہ کمرہ ای کے درس خارج میں بھی شرکت کرتے تھے۔[3]

اسی دور میں انہوں نے سید علی بھبھانی سے جو محقق تھرانی کے مکتب فقہی کے پیروکار تھے، خط و کتابت کے ذریعہ سے رابطہ رکھتے ہوئے قبلہ شناسی کے موضوع پر خامہ فرسائی کی۔ جس کے نتیجہ میں سید علی بھبھانی نے انہیں ۷ رجب ۱۳۷۰ ق کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے سید علی سیستانی کو جن کی عمر اس وقت ۲۱ سال تھی، عمدۃ العلمائ و نخبۃ الفقہائ المدققین کے لقب سے سرفراز کیا اور باقی بحث کو ملاقات کے وقت پر موکول کیا۔[4]

نجف کی طرف ہجرت

سید علی سیستانی نے سن ۱۳۷۱ ق میں نجف اشرف کا سفر اختیار کیا اور وہاں مدرسہ بخارایی میں سکونت اختیار کی۔ آیت اللہ خویی اور شیخ حسین حلی کے درس خارج میں شرکت کی۔ ان دونوں دروس میں طولانی مدت تک شرکت کرنے کے علاوہ انہوں نے سید محسن حکیم اور سید محمود شاہرودی کے دروس سے بھی کسب فیض کیا۔[5]

اجتہاد و مرجعیت

سید علی سیستانی نے سن ۱۳۸۰ ق میں ۳۱ سال کی عمر میں اپنے دو اساتذہ آیت اللہ خویی اور شیخ حسین حلی سے اجتہاد کا اجازہ مطلق حاصل کیا۔[6] شیخ حسین حلی سے اجتہاد کا اجازہ مطلق حاصل کرنے والے وہ فرد فرید ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے بھی سن ۱۳۸۰ ق کی اپنی ایک تحریر میں سید علی سیستانی کے علم رجال اور حدیث پر تسلط کی گواہی دی ہے۔ [7]

آیت اللہ سیستانی ۵ جمادی الثانیۃ ۱۴۰۹ ق میں اپنے استاد آیت اللہ خوئی کی خواہش پر مسجد خضرائ کے امام جماعت متعین ہوئے۔ اس سے پہلے تک آیت خوئی مسجد خضرائ میں نماز جماعت کا فریضہ ادا کرتے تھے، بیماری کے سبب انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے شاگرد کے سپرد کر دی۔ سید سیستانی ذی الحجہ ۱۴۱۴ ق کے آخری جمعہ اور عراقی حکومت (صدام حسین کے زمانہ میں) کی طرف سے اس مسجد کا دروازہ بند ہونے تک اس میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔[8]

سید علی سیستانی ۸ صفر ۱۴۱۳ ق میں آیت اللہ خوئی کے انتقال کے بعد مرجعیت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ۱۴۱۴ ق میں سید عبد الاعلی سبزواری اور سید محمد رضا گلپایگانی کی رحلت کے بعد اور اس کے بعد محمد علی اراکی اور سید محمد روحانی انتقال کے بعد ان کے مقلدین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔[9]

تالیفات

آیت اللہ سیستانی کی تالیفات میں کچھ کتابیں نشر ہو چکی ہیں جبکہ بعض تصنیفات ابھی بھی غیر مطبوعہ شکل میں ہیں۔ مطبوعہ کتابوں میں زیادہ تر ان کے فتاوی اور دروس کی تقریرات ہیں، جن کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:

۱۔ منھاج الصالحین، سید علی سیستانی کے فتاوی پر مشتمل ہے جو تین جلدوں میں سن ۱۳۱۵ ق میں قم میں طبع ہوئی ہے۔ منھاج الصالحین سید محسن الحکیم کی تالیف ہے، آیت اللہ خوئی نے اپنے فتاوی کو اس پر تطبیق دے کر اور اس میں بعض ابواب و فصول کا اضافہ کرکے شائع کیا ہے۔ اور ان کے بعد ان کے شاگرد سید علی سیستانی نے بھی اسی روش کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کتاب پر آیت اللہ سیستانی کی طرف سے مقدمہ لکھے جانے کی تاریخ ۲۰ ذی الحجۃ ۱۴۱۳ ق ہے۔[10]

۲۔ قاعدہ لا ضرر و لا ضرار، آیت اللہ سیستانی کے ففہ کے دروس کی تقریرات ہیں، جنہیں سید محمد رضا سیستانی نے تحریر کیا ہے اور یہ کتاب سن ۱۴۱۴ ق میں شائع ہوئی ہے۔[11]

۳۔ اختلاف الحدیث، سید سیستانی کے دروس حدیث کی تقریرات ہیں، جنہیں سن ۱۳۹۶ میں ان کے ایک شاگرد سید ہاشم ھاشمی نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۵ صفحات پر مشتمل ہے اور اسے ذاتی طور پر (غیر رسمی طور پر) شائع کیا گیا ہے۔ اس تالیف سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف احادیث کے رفع کے سلسلہ میں آیت اللہ سیستانی کے نظریات، تعادل و تراجیح پر مبتنی ہونے سے زیادہ اس کے اسباب اور منشائ پیدائش کی تجدید پر مشتمل ہیں۔[12]

۴۔ العروۃ الوثقی، سید کاظم یزدی کی کتاب پر سید علی سیستانی کے تالیقات ہیں۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۴۳۱ ق میں بیروت سے شائع ہوا ہے اور یہ دو جلد پر مشتمل ہے۔[13]

۵۔ الرافد فی علم اصول، سید منیر سید عدنان القطیفی کی تالیف ہے۔ اس میں آیت اللہ سیستانی کے دروس اصول کی تقریرات ہیں۔ یہ کتاب ایک جلد پر مشتمل ہے اور عربی زبان میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں مکتب امامیہ میں علم اصول فقہ کی اہمیت و منزلت، اس کے ادوار فکری وغیرہ کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے۔[14]

وابستہ مراکز و ادارے

آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی طرف خدمات انجام دینے والے علمی و ثقافتی ادارے دنیا کے مختلف گوشوں قم (ایران)، لندن (برطانیہ)، بیروت (لبنان)، استانبول (ٹرکی)، ایلام (ایران) میں قائم ہیں۔ ذیل میں ان کا ذکر کیا جا رہا ہے:

۱۔ امام علی (ع) سینٹر، قم (ایران)؛ اسلامی کتب اور ائمہ اہل بیت علیھم السلام علوم و معارف کے ترجمے اور نشر و اشاعت کی غرض سے ۱۳۷۳ ش میں[15] تاسیس کیا گیا۔ دنیا بھر کی ۲۵ اہم زبانوں میں اس کی طرف سے کتابیں طبع و شائع ہو چکی ہیں۔ اس ادارہ کا شعبہ لندن اور بیروت میں بھی ہے جو بالترتیب سن ۱۴۱۶ اور ۱۴۱۷ ق میں قائم کیا گیا ہے۔[16]

۲۔ آل البیت ثقافتی سینٹر، استانبول (ٹرکی)؛ اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے احیائ، عوام کو مکتب اہل بیت سے متعارف کرانے اور اسلامی و مذہبی تعلیمات کی حفاظت کے مقصد سے سن ۱۳۸۰ ش میں ٹرکی کے شہر استانبول میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ قرآنی و دینی کلاسوں کا انعقاد، مذہبی رسومات کا انعقاد، ٹرکی میں اہل بیت نامی اولین تخصصی کتب خانہ کا قیام، دینی و مذہبی سیمیناروں کا انعقاد، دینی کتب و مجلات کا ترجمہ و نشر و اشاعت جیسے امور اس ادارہ کی فعالیت میں شامل ہیں۔[17] اس ادارہ کے ایک شعبہ نے جرمنی میں سن ۱۳۸۴ ش سے اپنی خدمات کا آغاز کیا ہے۔[18]

۳۔ اعتقادی تحقیقاتی سینٹر، قم؛ یہ ادارہ مختلف شعبوں جیسے کتب خانہ، عقیدہ سے مربوط اعتراضات کا جواب دینے والی محققین کی کمیٹی، ہدایت یافتہ افراد کے امور پر توجہ، اسناد و دستاویز، عقائد سے متعلق کانفرنس اور انٹر نیٹ جیسے امور کے سلسلہ میں خدمات انجام دیتا ہے۔[19]

۴۔ المصطفی اسلامی تحقیقاتی سینٹر، قم؛ اس ادارہ کے قیام کا مقصد، عقائد پر مبنی شیعہ سنی مصادر و منابع پر مشتمل ایک اطلاعاتی بینک یا ذخیرہ ایجاد کرنا ہے۔ اور اس نے عقائد کے دائرۃ المعارف یا انسائکلو پیڈیا کی تالیف کے لئے تین ہزار سے زیادہ جلدوں کی تحقیق اور جمع آوری انجام دی ہے۔[20]

۵۔ اسلامی میراث کے احیائ کا مزکر، قم؛ یہ ادارہ خطی یا مخطوطات کے منابع و مصادر کی جمع آوری کی غرض سے تاسیس کیا گیا ہے۔[21]

۶۔ فلکیات و نجومی تحقیقات کا مرکز، قم؛ اس ادارہ کی بنیاد ۱۴۱۸ ش میں رکھی گئی ہے اور اس کی تشکیل کا ہدف نجوم، منظومہ شمسی، اسلامی علم فلکیات سے متعلق تعلیم، فلکیات و نجوم کالج کا قیام، کتب خانہ تخصصی نجوم کی تاسیس، نجوم سے متعلق مقالات کا ترجمہ، رصد خانہ یا لیبوریٹری کا قیام، نجوم کے سلسلہ میں اسلامی محققین کی تالیفات کی طباعت، نجومی کیلینڈر کی طباعت وغیرہ جیسے امور کی انجام دہی ہے۔[22]

۷۔ امام صادق کلچرل کامپلیکس، بیروت (لبنان)؛ ۱۳۸۵ ش میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارہ میں شرعی سوال و جواب کا دفتر، کتب خانہ اور آڈیٹوریم اپنی فعالیت انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ادارہ کا ایک اور مقصد سماجی و ثقافتی فلاحی اور خیراتی امور کی انجام دہی ہے۔[23]

۸۔ آل البیت گلوبل انفارمیشن سینٹر، قم؛ یہ ادارہ بہار ۱۳۷۷ ش میں تاسیس کیا گیا۔ اس کی فعالیت میں سے ایک انٹر نیٹ ویب سایٹ الشیعہ www.al-shia.org کا قیام ہے۔[24] جس کا مقصد شیعہ اور اہل بیت علیہم السلام کے معارف اور تعلیمات کی نشر و اشاعت ہے۔[25] یہ ویب سائٹ دنیا کی اہم ۲۹ زبان میں خدمت انجام دے رہی ہے۔[26] اسی نام کے دوسرے ادارے نجف[27]، کربلا[28]، کاظمین[29] (عراق) اصفہان، تہران اور ایلام[30] (ایران) میں انٹر نیٹ کے ذریعہ اسلامی اور شیعی تعلیمات کی تبلیغ کی غرض سے ان شہروں میں قائم کئے گئے ہیں۔

۹۔ شہر قم میں تخصصی کتب خانے؛ آیت اللہ سیستانی کے دوسرے اداروں میں سے ایک یہ ادارہ بھی ہے جو مختلف موضوعات تفسیر و علوم قرآن، علوم حدیث، فقہ و اصول، فلسفہ و کلام، ادبیات عرب، تاریخ اسلام و ایران پر فعالیت انجام دے رہا ہے۔

کتب خانہ تخصصی تفسیر علوم قرآن، قم؛ ۱۴۱۸ ق میں اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس نے ۱۵ ہزار سے زائد فارسی و عربی کتابوں کے ساتھ اپنی فعالیت کا آغاز کیا ہے۔[31]

کتب خانہ تخصصی علوم حدیث، قم؛ ۱۴۱۸ ق میں اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور اس میں شیعہ حدیث، رجال و درایہ، انسائکلو پیڈیا، ڈکشنری و لغات، انگریزی و فرانسوی و جرمن زبابوں میں حدیث کے منابع و مآخذ جیسے موضوعات پر کتابیں شامل ہیں اور اسی طرح سے اس میں حدیث متعلق مجلات موجود ہیں۔[32]

کتب خانہ تخصصی فقہ و اصول، قم؛ ۱۴۲۰ ق میں اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور افتتاح کے وقت اس میں ۱۵ ہزار سے کتب اور ۱۵۸۰ تخصصی مجلات موجود تھے۔ اس میں فقہ و اصول اور رجال و حقوق جیسے موضوعات پر کتابیں شامل ہیں۔[33]

کتب خانہ تخصصی فلسفہ و کلام، قم؛ اس کتب خانہ میں فلسفہ، کلام، منطق، تاریخ، حکمت، عرفان و مذاہب فلسفی اور ادیان مختلف جیسے موضوعات پر کتابیں شامل ہیں۔[34]

کتب خانہ تخصصی ادبیات عرب، قم؛ ۱۴۱۸ ق میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور اس میں عربی و فارسی کی ۴۵ ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔[35]

کتب خانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران، قم؛ ۱۳۷۴ شمسی میں اس نے ۴ ہزار کتابوں کے ساتھ اپنی فعالیت کا آغاز کیا اور ۱۳۹۰ ش میں اس میں موجود کتب کی تعداد میں ایک لاکھ پندرہ ہزار تک کا اصافہ ہو چکا تھا۔ اب تک اس کتب خانہ کی طرف سے ۱۶ عنوان کتب طبع ہو چکی ہیں۔[36]

آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی طرف سے سماجی و فلاحی خدمات کے سلسلہ میں کافی مراکز دنیا کے مختلف گوشوں میں قائم کئے گئے ہیں:

۱۔ مدینۃ العلم ثقافتی رہائشی کامپلیکس، نجف اشرف؛ طلاب حوزہ علمیہ کی رہائش کے مقصد سے اس کی بنیاد رکھی گئی۔[37] اس میں رہایشی عمارتیں، کنڈر گارڈن، ابتدائی و متوسطہ و ہائی اسکول، ہاسپیٹل و شاپنگ سینٹر کے ساتھ ساتھ ثقافتی مرکز جیسے کتب خانہ بھی شامل ہیں۔ آیت اللہ سیستانی ثقافتی رہایشی کامپلیکس، قم؛ میں بھی حوزہ علمیہ قم کے طلاب کی رہایش کے مقصد سے ۱۴۱۶ ق تاسیس کیا گیا۔[38] اسی طرح سے آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی جانب سے قم کے مہدیہ رہایشی کامپلیکس کی تعمیر میں جو قم میں حوزہ علمیہ کے طلاب کے لئے بنایا گیا ایک دوسرا کامپلیکس ہے، تعاون شامل رہا ہے۔[39] ثامن الحجج رہایشی کامپلیکس مشہد[40] اور اسی طرح سے امام ہادی رہائشی کامپلیکس قم بھی اسی تعاون اور مشارکت کی مثال ہیں۔[41]

۲۔ مدرسہ علمیہ بلاغی[42] و نجم الائمہ[43] نجف، مدرسہ قرآنی کربلا،[44] مدرسہ حضرت رقیہ برای ایتام، کربلا،[45] آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی طرف سے تاسیس اور چلائے جا رہے ہیں۔

۳۔ فلاحی اسپتال حضرت امام صادق (ع) قم،[46] فلاحی اسپتال امام حسن مجتبی (ع) ایلام،[47] امام حسین (ع) تخصصی اسپتال، کربلا،[48] جواد الائمۃ تخصصی و فوق تخصصی آئی ہاسپیٹل قم،[49] اور اسی طرح سے رفاہی ادارہ اجتماعی العین جو یتیموں کی حمایت اور ان کی سر پرستی کے کئے بنایا گیا ہے،[50] آیت اللہ سیستانی کے دفتر کے سماجی کاموں میں سے ایک ہے

سیاسی و سماجی کارنامے

آیت اللہ خویی کی نماز جنازہ کی امامت: آیت اللہ خوئی کی وفات کے بعد، سید علی سیستانی نے جو ان کے مہم ترین شاگردوں میں سے تھے، ان کی نماز جنارہ پڑھائی۔ حوزہ کی سنت کے مطابق، جو بھی گزشتہ مرجع تقلید کے جنازہ پر نماز پڑھاتا ہے وہی اس کا جانشین بنتا ہے۔[51] اگر چہ صدام حسین کی حکومت کے زمانہ میں شیعوں اور حوزہ علمیہ نجف کے حالات سخت اور پیچیدہ ہونے اور آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری کے ۲۵ مرداد ۱۳۷۲ ش تک ہونے کے سبب خاموشی کے ساتھ آیت اللہ سیستانی کی مرجعیت کا آغاز ہوا۔[52] البتہ آیت اللہ خوئی کے ایک شاگرد جعفر نطنزی کا ماننا ہے کہ آیت اللہ خوئی کے جنازہ پر آیت اللہ سیستانی کا نماز پڑھانا ان کے جانشین ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ہے کیونکہ اس وقت نجف اشرف میں کوئی بچا ہی نہیں تھا۔ نطنزی اسی طرح سے آیت خوئی کی تشییع جنازہ اور آیت اللہ سیستانی کے نماز پڑھانے کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ کوئی تشییع کا ماحول یا ہلچل نہیں تھی، جنازہ کو لایا گیا انہوں نے نماز پڑھائی اور چلے گئے۔ بعد میں بھی کوئی ایسی علامت دیکھنے میں نہیں آئی جو ان کی مرجعیت کی دلیل بن سکتی ہو۔ وہ ایک فہیم اور با فراست انسان ہیں۔ ان کے بعد آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری مرجع تقلید تھے۔[53]

عراقی حکومت اور قانون کی تبدیلی میں کردار: آیت اللہ سیستانی نے عراق پر امریکی فوجیوں کے حملہ اور صدام حسین کی حکومت کے سقوط کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کی مقاومت میں دلچسبی نہیں دکھائی۔ اور انہوں نے ہمیشہ جی گارنر اور پال بارمر جیسی امریکی شخصیات سے ملاقات سے پرہیز کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے عراق میں جدید حکومت کے قیام اور جدید ملی قوانین کی تدوین کے سلسلہ میں ہونے والے مختلف انتخابات میں عوام کو اس میں شرکت کرنے کی طرف تشویق کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کرداد ادا کیا۔[54]

امریکی و عراقی افواج و مقتدی صدر کے تنازع کا حل: ۱۳۸۳ ش میں روزنامہ الحوزہ پر پابندی کے ساتھ ہی جس میں مقتدی صدر کے اسلامی اور امریکہ مخالف نظریات نشر ہوتے تھے،[55] جیش المہدی کے نیم فوجی دستوں اور عراق میں موجود امریکی افواج کے ساتھ جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔ یہ بحران امریکی فوج کے ٹینکوں کے کربلا، نجف اور کوفہ جیسے شہروں میں داخل ہونے اور وہاں لڑائی اور جھڑپوں کا سبب بنا۔[56] جس کے نتیجہ میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ ۱۳۸۳ ش میں اردیبہشت سے لیکر مرداد کے مہینے تک سپاہ مہدی اور امریکی و عراقی افواج کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ جس کے نتیجہ میں شہر نجف کا محاصرہ کر لیا گیا اور امیر المومنین (ع) کے حرم کو نقصان پہچا اور عراق کے شیعہ نشین علاقوں میں بسنے والے دسیوں افراد جاں بحق ہوئے[57] اور امیر المومنین علیہ السلام کے حرم میں سپاہ مہدی نے اپنے سنگر بنا لئے۔[58] [59]آخر کار اس بحران کا حل آیت اللہ سیستانی کے اس میں وارد ہونے اور اس مسئلہ پر ان کی طرف پیش کی گئیں امن پسند تجاویز سے نکالا گیا اور ۶ شہریور ۱۳۸۳ ش کو اس کا سد باب ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد سے امیر المومنین علیہ السلام کے حرم اور مسجد کوفہ کی تمام تر ذمہ داریوں کو مرجعیت کے سپرد کر دیا گیا۔[60]

داعش سے جہاد کا فتوا: آیت اللہ سیستانی نے عراقی شہر موصل کے سقوط اور داعش کے عراق کے مرکزی اور جنوبی علاقوں کی طرف رخ کرنے کے بعد ملک و ملت اور مقدسات دینی کے دفاع کے سلسلہ میں واجب کفائی کا حکم دیا۔ اور جنگ کرنے کی توانائی رکھنے والے شہریوں کو دفاع اور مقابلہ کے لئے اسلحہ اٹھانے اور فوج کے ساتھ ملحق ہونے کے لئے طلب کیا۔[61] آیت اللہ سیستانی کی اس خواہش کا شہر کربلا کے امام جمعہ اور آیت اللہ سیستانی کے نمایندہ عبد المہدی کربلائی نے اعلان کیا اگر چہ یہ حکم فتوی کی شکل میں نہیں تھا۔[62] لیکن بعض تحلیل کے مطابق فتوی کے حکم میں تھی اور یہ حکم سبب بنا کہ لاکھوں افراد داعش کے ساتھ مقابلہ کے لئے عراقی افواج کے ساتھ ملحق ہو گئے۔[63][64]

فرانسیس کیتھولک پاپ کی نجف میں آپ کے گھر آمد

فرانسیس کیتھولک میسحیوں کے پاپ نے عراق کے سفر کے دوران 6 مارچ سنہ 2021ء کو نجف میں آیت اللہ سیستانی کے گھر آکر آپ سے ملاقات کی۔[65] آیت اللہ سیستانی نے اس ملاقات میں دنیا مختلف ممالک میں انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، غربت، دینی اور فکری محدودیت، آزادی سے محرومی اور معاشرتی ناانصافی بالخصوص مشرق وسطی میں جنگ اور تشدد نیز اس خطہ اور فلسطین میں اقتصادی پابندیوں اور غیر ارادی آوارگیوں کا تذکرہ کیا۔

 

Copied from: Wikishia.net Website

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *